پردے

پردے

تحریر: ڈاکٹر یحییٰ نوری

کراچی میں بارش صرف مون سون کے موسم میں ہوتی ہے۔

باقی سال میں کبھی کبھار ہلکی پھلکی بوندیں پڑ جاتی ہیں تو سب خوش ہو جاتے ہیں۔

وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔

ایم بی اے کی ہیلتھ سائکالوجی کی کلاس تھی۔

صبح جب ہم کلاس میں داخل ہوئے تو  آسمان صاف تھا۔

ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بارش بھی ہو سکتی ہے۔

کھڑکیوں پر پردے پڑے تھے۔

ایسے میں باہر زبردست بارش ہوئی۔

نہ مجھے کوئی خبر  ہوئی نہ طلبہ کو۔

بریک میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ہر طرف جل تھل  تھا۔

مگر بارش ہو کر رک چکی تھی۔

میں نے پروفیسر کو بتایا:

’’اگر تم لوگوں کوکلاس کے دوران پتا چل جاتا کہ باہر بارش ہو رہی ہے تو کیا ہوتا؟‘‘

’’تو طلبہ باہر جانے کی ضد کرتے۔

مجھے انہیں بریک لمبی دینی پڑتی۔

اور کلاس میں جو ماحول بنا ہوا تھا اس میں بھی ایک خلل پیدا ہوتا۔

شاید اس دن جو کچھ کرنا تھا وہ سب بھی مکمل نہ ہو پاتا۔‘‘

’’ہمارے ارد گرد بہت کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں ہمیں نہ بھی پتا چلے تو ہمارا کام چلتا رہتا ہے۔

غیر ضروری معلومات صرف ہماری توجہ خراب کرتی ہیں۔

ہماری یکسوئی کو تباہ کرتی ہیں۔

میرا ایک دوست کہا کرتا تھا کہ جس گلی  میں جانا نہیں، اس کا پتا پوچھ کر کیا کرنا؟

اس لیے انسان کو صرف اپنے کام کی خبر سے مطلب رکھنا چاہیے۔

بہت سی خبریں آپ تک پہنچیں نہ پہنچیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اکثر ان کا نہ پہنچنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

ویسے بھی بندے کو فکر اس چیز کی کرنی چاہیے  جس کے بارے میں وہ کچھ کر سکتا ہے۔

جس معاملے میں آپ کچھ کر  ہی نہیں سکتے اس بارے میں فکر کرنے کا ویسے بھی کیا فائدہ؟

اکثر اس فکر میں آپ وہ بھی نہیں کر پاتے جو آپ کر سکتے ہیں۔

کیوں کہ آپ کو توجہ اس معاملے پر زیادہ رہتی ہے جو آپ کے اختیار سے باہر ہے۔

اس پر پردے  ہی پڑے رہیں تو آپ کے لیے بہتر ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *