صرف ایک ہفتے میں تبدیلی۔ ڈاکٹر جو ڈسپنزا
اردو ترجمہ اور آواز: سید عرفان احمد
اکثر لوگ صبح اٹھتے ہیں تو اپنے مسائل کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر سارا دن پریشان ہوتے رہتے ہیں۔
یہ مسائل عموماً کچھ خاص یادوں سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ یادیں کچھ خاص لوگوں اور چیزوں سے مربوط ہوتی ہیں۔ انسانی ذہن گراموفون کی طرح ہے جو آپ کو بار بار ایک ہی ڈسک چلاتا اور سناتا رہتا ہے۔ آپ کے ذہن میں ہر روز ماضی کی ایک جیسی چیزیں یا یادیں چلتی رہتی ہیں۔
آپ جس لمحے آپ اپنا دن شروع کرتے ہیں تو شروع دن ہی سے ہی ماضی تجربات کے بارے میں سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ کل کیا ہوا تھا؟ اس سے پہلے کیا ہوگیا تھا؟ پچھلے سال کیا ہوا تھا؟ حال میں رہتے ہوئے ماضی کی یادوں میں کھوئے رہتے ہیں۔
پھر ہر یاد میں جذبات ہوتے ہیں اور یہ جذبات ماضی کے تجربات کی آخری پیداوار ہوتے ہیں۔ اس لیے جس لمحے آپ اپنے ماضی کے مسائل کو یاد کرتے ہیں تو اس سے منسلک ناخوشی کے احساسات بھی سینے میں محسوس ہونے لگتے ہیں۔ اور یوں آپ اچانک ناخوش ہوجاتے ہیں۔ آپ کو کرب یا تناو محسوس ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ماضی کی یہ یادیں آپ کی شخصیت کی تخلیق کرتی ہیں۔ اگر آپ صبح کے وقت تکلیف دہ یادوں پر توجہ دیتے یں تو آپ کا پورا دن اسی کرب اور تکلیف میں گزرتا ہے۔ آپ کو اس دن ملنے والے مواقع دکھائ ہی نہیں دیتے کیونکہ انسان تو صرف وہی دیکھ سکتا ہے جس پر وہ ذہنی طور پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ اس طرح آپ کا ماضی جلد یا بدیر آپ کا مستقبل بن جائے گا۔ مثال کے طور پر، کل جو کچھ برا ہوا اس پر آپ کو غصہ آیا۔ پھر آج صبح اٹھ کر آپ نے اس برے واقعے کو سوچنا شروع کردیا۔ یوں، بستر پر بیٹھے بیٹھے آپ کو دوبارہ ویسا ہی غصہ محسوس ہونے لگا جیسا کل عین اس برے واقعے کے وقت محسوس ہوا تھا۔ آپ اگلے دو تین دن تک یہ عمل کرتے رہے۔ آپ کے یہ دن گزرتے رہے۔ چوتھے پانچویں دسویں روز ویسے ہی غصے والے خیالات خود آنا شروع ہوجائیں گے کیونکہ آپ گزشتہ چند روز سے ان غصیلے خیالات کی پریکٹس جو کررہے تھے۔ ایک ہفتہ۔ دس دن۔ بیس دن۔ پورا مہینہ۔
لوگ آپ کو دیکھ کر سمجھیں گے کہ ان دنوں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں یا موڈ آف ہے۔ اگر آپ دو تین مہینے مزید ان غصیلے خیالات کو پالتے رہیں گے تو جلد ہی غصہ آپ کی شخصیت اور کردار کا حصہ بن جائے گا۔ آپ ایسے شخص کے طور پر جانے جائیں گے جو ہمیشہ غصے میں رہتا ہے۔
یاد رکھیں، اگر آپ ماضی میں سوچتے رہتے ہیں تو آپ ہر روز ایک ہی زندگی کی تخلیق کرتے رہیں گے یہ سمجھے بغیر کہ آپ خود وہ زندگی تخلیق کررہے ہیں جو آپ نہیں چاہتے۔
عام طور پر جب آپ جاگتے ہیں تو چند مخصوص معمولات اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً اپنا سیل فون چیک کرتے ہیں۔ اپنے واٹس ایپ یا کچھ ای میلز یا خبریں پڑھتے ہیں۔ آپ ہر صبح لاشعوری طور پر وہی کام کرتے ہیں جن سے پرانے خیالات و حالات ہی تشکیل پاسکتے ہیں کیونکہ آپ روزانہ ایک جیسی چیزیں کررہے ہیں۔ آپ نے کچھ نیا نہیں کیا تو کچھ نیا زندگی میں آئے گا کیسے؟
پھر آپ بیت الخلا جاتے ہیں۔ اپنا پسندیدہ چائے کے کپ میں چائے پیتے ہیں۔ شاور لیتے ہیں۔ کپڑے پہنتے ہیں۔ پھر اسی بس یا راستے سے کام پر جاتے ہیں جس راستے سے برسوں سے گزررہے ہیں۔ آپ کو وہی لوگ نظر آتے ہیں جوآپ کے ان جذباتی بٹنوں کو روزانہ دباتے ہیں ۔ آپ اسی راستے سے اسی پوسچر اور اسی چال ڈھال کے ساتھ گھر آتے ہیں۔ گھر پر بھی وہی کام کچھ کرتے ہیں جو برسوں سے آپ کا معمول ہے۔ انسانی روٹین ایک کمپیوٹر پروگرام کی طرح کام کرتی ہے۔ برسوں ایک ہی روٹین کے مطابق زندگی گزارتے گزارتے آپ نے اپنی زندگی کی ایک مخصوص پروگرامنگ کرلی ہے اور یوں اپنی آزادی کھودی ہے۔ آپ کی زندگی آپ خود نہیں چلارہے بلکہ آپ کی لاشعوری روٹین چلارہی ہے جس کے تحت آپ کے ذہن کی پروگرامنگ ہوچکی ہے۔
یہ لاشعوری پروگرام ہماری زندگی کی 95% چیزوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہم پانچ فیصد اپنی مرضی اور شعور سے کرتے ہیں مگر پچانوے فیصد کام ہم اسی پرانے پیٹرن پر برسوں سے کرتے چلے آتے ہیں۔
جب ہم پینتس سال کے ہوتے ہیں تو رویوں کا ایک یادگار مجموعہ جمع ہوجاتا ہے
جذباتی رد عمل
لاشعوری عادات
سخت گیر برتائو
عقائد
تصورات
یہ سب چیزیں ایک لاشعوری پروگرام کی طرح ہمارے اندر کام کرتی رہتی ہیں۔اس لیے جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میں صحت مند رہنا چاہتا ہوں، میں خوش رہنا چاہتا ہوں، میں پیسہ کمانا چاہتا ہوں ، تو اگرچہ آپ شعوری طور پر تو یہ چاہتے ہیں مگر آپ کا جسم اس سے مختلف پروگرام سے آپریٹ ہورہا ہے۔ آپ اپنے پانچ فیصد شعوری ذہن کو پچانوے فیصد لاشعوری ذہن کے خلاف چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس لیے ہر بار جب آپ اپنی زندگی کو کسی بھی طور پر بہتر بنانے کی خواہش کرتے ہیں اور اس کیلئے عمل کی کوشش بھی کرتے ہیں تو چند گھنٹوں یا چند روز میں آپ کی یہ کوشش دَم توڑجاتی ہے۔ آپ چند قدم نئے پروگرام کے مطابق آگے بڑھاتے ہیں لیکن چند روز میں آپ کا پرانا اور کہیں طاقت ور لاشعوری پروگرام آپ کے ارادے پر غالب آجاتا ہے۔ آپ نے خود کو بدلنے کا جو فیصلہ کیا تھا، وہ فوراً بھسم ہوجاتا ہے۔
تو پھر، کیا آپ اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے؟ آپ اپنی زندگی کو ویسا نہیں بناسکتے جیسا آپ چاہتے ہیں؟
بالکل کرسکتے ہیں۔ مگر کیسے؟
اس کیلئے آپ کو خود کو اپنے اینالیٹکیکل مائنڈ سے آگے بڑھنا ہوگا۔ کیونکہ یہی وہ تدبیر ہے جو آپ شعوری ذہن کو لاشعوری ذہن سے الگ کرتی ہے۔ یہاں اصل کام ہے مراقبہ یعنی میڈیٹیشن کا۔ مراقبہ کی باقاعدہ پریکٹس کرکے آپ اپنی برین ویوز یو بدل سکتے ہیں۔ مراقبہ کی مدد سے آپ اپنی دماغی لہروں کو سست کرکے یہ کام کرتے ہیں۔ مراقبہ آپ کو اس قابل کرتا ہے کہ آپ سانس پر توجہ دیتے ہوئے اپنے پرانے تھاٹ پیٹرن کو توڑ سکتے اور اپنے ذہن کی برسوں پرانی لاشعوری منفی پروگرامنگ یا کوڈنگ کو بدل سکتے ہیں۔ جب یہ لاشعوری پروگرامنگ بدلتی ہے تو آپ کی زندگی میں بنیادی تبدیلیاں آنا شروع ہوجاتی ہے۔
زیادہ تر لوگ اپنی زندگی میں بڑی تبدیلی شروع کرنے کیلئے کسی بڑے حادثے، ٹراما وغیرہ کا انتظار کرتے ہیں۔ مثلاً، جب شوگر لیول شدید ہوتا ہے میٹھی غذائیں چھوڑتے ہیں۔ جب ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو صحت بخش غذاوں اور ورزش کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرجوڈسپنزا کے مطابق، آپ کیوں اپنی زندگی میں بہتر تبدیلیوں کیلئے کسی حادثے یا منفی واقعات کے منتظر رہیں جبکہ آپ اچھے حالات میں بھی اپنی زندگی کو مزید بہتر بناسکتے ہیں۔ آپ کسی کرب اور غم کا تجربہ کیے بغیر زندگی کو خوشگوار بناسکتے ہیں۔ آپ ہارٹ اٹیک سے گزرے بغیرہارٹ اٹیک سے بچائو کی تدابیر کرسکتے ہیں۔
دنیا کے ستر فیصد افراد اپنی زندگی سروائیول لیول میں گزارتے ہیں، یعنی بس کسی طرح زندگی گزرتی رہے۔ بقا کی یہ سطح تو کم ترین معیارِ حیات ہے جو آدمی اختیار کرتا ہے حالانکہ اس لیول سے کہیں بلند تر ہوکر زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ سروائیول موڈ میں زندگی گزارنے والے لوگ ہمیشہ اپنی زندگی کے ماضی کے منفی اور برے تجربات پر متوجہ رہتے ہیں جن سے ان کے دماغ کو منفی پیغامات ہی جاتے ہیں۔ وہ منفی مناظر دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد منفی چیزیں تلاش کرتے ہیں۔ ہر شے میں انھیں بہت سے منفی اور خراب پہلو مل جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنے لیے بدترین نتائج کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسے یوں سمجھیں، آپ کو بھوک لگی ہے اور آپ ایک دکان پر جاکر اپنی بھوک مٹانے کیلئے صرف وہی چیزیں خریدتے ہیں جن سے صحت برباد ہوتی ہے حالانکہ اس دکان پر ایسی غذائیں بھی ہیں جو بھوک مٹانے کے ساتھ ساتھ صحت کیلئے بھی مناسب ہیں لیکن نظر انتخاب مضر صحت غذائوں پر جاتی ہے جیسے چپس، سوڈا ڈرنک وغیرہ۔
آپ ذہن کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں۔ آپ کے ساتھ جو کچھ دن بھر میں واقعات ہوتے ہیں، آپ ہر بار ان کے بدترین پہلوئوں پر توجہ دیتے ہیں۔ آپ اپنے ذہن میں منفی واقعات اور کے منفی پہلوئوں کو ری کال کرتے اور پھر دماغ اور جسم میں وہی کیمسٹری تیار کرتے ہیں جیسے یہ منفی واقعہ آپ کے ساتھ پھر سے ہورہا ہے۔ اس کے بعد وہی منفی جذباتی سگنل دماغ کو اور پھر جسم کو جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ لاشعوری طور پر ہوتا ہے اور آپ کے دماغ میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ تصور اور حقیقت کے درمیان فرق کرسکے۔ آپ کا ہر تصور آپ کے دماغ کیلئے حقیقت ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا، مثبت ہو یا منفی۔ چنانچہ ہر بار جب منفی تصور ذہن میں آتا ہے تو دماغ اسے حقیقت سمجھتے ہوئے منفی احساس پیدا کرتا ہے اور اس منفی احساس سے منفی برتائو یعنی عمل پیدا ہوتا ہے۔
آپ دن رات منفی جذباتی کیفیات میں پھنسے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس سے نکلیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت تک کئی سال کی پریکٹس کے بعد جسم آپ کے ذہن سے کہیں طاقت ور ہوچکا ہوتا ہے۔ آپ کے ذہن میں پیدا ہونے والی ’’اچھے کی خواہش‘‘ کی قوت آپ کے جسم کی عادت کی قوت سے بہت کمزور ہوتی ہے۔ ایسے میں آپ کاےذہن پر آپ کا جسم حاوی اور غالب ہوچکا ہوتا ہے۔
جب آپ خود کو بہتر کرنا اوربدلنا چاہتے ہیں تو جسم کے اندر اَن جانی مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ اس کیلئے یہ بہتری ایک اجنبی شے ہوتی ہے ۔ یہ اجنبی شے ایک خوف پیدا کردیتی ہے اور جسم کو لگتا ہے کہ اگر اس نے اپنے اندر کچھ نیا کیا (جو برسوں کے عمل کے خلاف ہوتا ہے) تو اس کیلئے بہت خطرناک ہوگا۔ حالانکہ عقلی اور منطقی طور پر آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا آپ کے مستقبل کیلئے بہت مفید ہوسکتا ہے لیکن یہاں غلبہ عقل کا نہیں، عادت کا ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ مراقبہ کرنا شروع کرتے ہیں تو فوراً آپ کی ناک پر کھجلی شروع ہوجاتی ہے۔ آپ کو کوئی بہت اہم کام یاد آجاتا ہے۔ آپ کو بیس پچیس برس پرانا کوئ واقعہ یاد آجاتا ہے۔ آپ کو کسی کا برا ستانے لگتا ہے۔ اور ایک بار پھر بہت جلد آپ پریشان کن خیالات کے بہائو میں بہنے لگتے ہیں۔ پرانے خیالات کا مطلب ہے ، پرانی زندگی، پرانے معمولات۔ آپ چند منٹ یا چند سیکنڈ بھی مراقبہ نہیں کرپاتےا ور اسے چھوڑ کر دوبارہ اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ پرانے معمولات میں آپ خود کو محفوظ پناہ گاہ میں محسوس کرتے ہیں۔
لیکن مایوس نہ ہوں۔ قدرت نے آپ کو ایسے بہت سے آلات اور تدابیر دی ہیں جن کی مددسے آپ اپنی پریشان کن زندگی سے چھٹکارا پاسکتے ہیں اور اپنی زندگی کو کامیاب اور شاداں و فرحاں بناسکتے ہیں۔
ایک موثر تدبیر نئی اور نامعلوم دنیا میں داخل ہونا ہے۔ نئی اور نامعلوم دنیا میں داخل ہوکر آپ ویسا مستقبل تخلیق کرسکتے ہیں جیسا آپ چاہتے ہیں۔ من چاہا مستقبل تخلیق کرنے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔۔۔ اور وہ ہے۔۔۔ مراقبہ۔۔۔ ایک مرتبہ جب آپ مراقبہ کی گہری کیفیت میں داخل ہوجاتے ہیں تو آپ اپنا من چاہا مستقبل تخلیق کرنا شروع کردیتے ہیں۔ آپ جیسی زندگی چاہتے ہیں، اس کی تخلیق کا آغاز ہوجاتا ہے۔ آپ جیسا برتائو اختیار کرنا چاہتے ہیں، وہ آپ کی شخصیت میں تشکیل پانے لگتا ہے۔ آپ جیسا فرد بننے کے خواہش مند ہیں، ویسا انسان بننا شروع کردیتے ہیں۔
تو اس کیلئے آپ کو کیا کرنا ہے؟
بس، اپنی آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائیں۔ پہلے چند منٹ اپنی سانس پر توجہ دیں اور پھر جیسا برتائو آپ اپنے لیے چاہتے ہیں، اس کا تصور کرنا شروع کردیجیے۔ یہ مراقبہ آپ کے مستقبل کی تشکیل کا بہترین اور موثر ترین طریقہ ہے۔ جب آپ اپنے ذہن کو تصور کے ذریعے ایسے اچھے اور مثبت برتائو کا پیغام دینا شروع کریں گے تو آپ کچھ ہی عرصے میں ویسا برتائو اپنے اندر پیدا کرنے لگیں گے۔ کیونکہ آپ کے دماغ کو ذہنی تصور اور حقیقی واقعے کے درمیان فرق نہیں معلوم۔
تصور یعنی مراقبہ کے عمل کی مدد سے آپ اپنے دماغ میں مستقبل کی زندگی کا سافٹ ویر انسٹال کررہے ہیں۔ اگر آپ کچھ عرصے تک مسلسل یہ کام کرتے رہیں گے تو آپ کے دماغ میں ماضی کی منفی یادوں کا ریکارڈ محو ہوکر مستقبل کا نقشہ واضح ہونا شروع ہوجائے گا۔
جب آپ ایسا کرنا شروع کریں گے تو اس میں سب سے مشکل کام اپنے جسم کو جذباتی سطح پریہ سمجھانا ہے کہ جب مجھے ایسا مستقبل مل جائے گا تو میں کیسے محسوس کروں گا۔ یاد رکھیں، محض آنکھیں بند کرکے تصور کرنا کافی نہیں بلکہ اس کیفیت کو گہرے جذباتی تجربے کے ساتھ محسوس کرنا بہت ضروری ہے۔ اتنی گہرائ کے ساتھ کہ جتنا آپ کسی شدید تجربے کے دوران اپنے احساسات کو محسوس کرتے ہیں۔ اگر خیالات آپ کے ذہن کی زبان ہیں تو احساسات و جذبات آپ کے جسم کی زبان ہیں۔ آپ کا جسم آپ کے اندر پائے جانے والے احساسات و جذبات کے ذریعے سمجھتا ہے کہ آپ کا ذہن اسے کیا کہہ رہا ہے۔ اگر آپ کا جسم کچھ محسوس نہیں کرتا یا بہت کم کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا جسم آپ کے ذہن سے سگنل وصول نہیں کررہا۔ یوں سمجھیں کہ آپ ایک کمرے میں ہیں جہاں انٹرنیٹ وائے فائے موڈیم چل رہا ہے لیکن آپ کے موبائل میں اس کے سگنل نہیں آرہے کیونکہ آپ نے اپنے موبائل کی وائے فائے کو ٹرن آف کردیا ہے۔ آپ اس کمرے کے وائے فائے موڈیم سے وائے فائے سگنل تبھی وصول کرسکتے ہیں کہ جب آپ اپنے موبائل کا وائے فائے ٹرن آن کریں گے۔
ایسے ہی جس لمحے آپ نےاپنے مثبت خیالات کے احساسات و جذبات کو محسوس کرنا شروع کردیا، اسی لمحے آپ اپنا نیا مستقبل ڈاونلوڈ کرنا شروع کردیں گے۔ پھر کیا ہوگا؟ پھر، آپ کو اپنے مثبت مستقبل کو محسوس کرنے کیلئے الگ سے کوئ زور نہیں لگانا پڑے گا۔ آپ رفتہ رفتہ اپنے مثبت اور کامیاب مستقبل سے مربوط ہونا شروع کردیں گے یعنی آپ کا کامیاب مستقبل تخلیق ہونا شروع ہوجائے گا۔ آپ کو کامیاب محسوس کرنے کیلئے پہلے کامیاب ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ کو فراوانی اور کثرت محسوس کرنے کیلئے پہلے ڈھیر ساری دولت جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ آپ کو اپنے رشتوں میں محبت پانے کیلئے کسی پرانے رشتے کو توڑنے یا نیا رشتہ استوار کرنے کی ضرورت نہیں رہےگی۔
کوانٹم ماڈل آف ریلیٹی کے مطابق، آپ جس لمحے اپنے اندر رفراخی اور خودتوقیری محسوس کرناشروع کرنے دیں گے، اسی لمحے سے آپ دولت اور عزت تخلیق کرنا شروع کردیں گے۔ جس لمحے آپ اپنے خوش حال مستقبل کو لمحہ موجود میں محسوس کرنا شروع کردیں گے، اسی لمحے سے آپ اپنا خوش حال مستقبل تخلیق کرنے لگیں گے۔ تب آپ کو احساس ہوگا کہ آپ حالات کا شکار نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ کو یقین ہوجائے گاکہ میرے اپنے حالات میرے اپنے کنٹرول میں ہیں نہ کہ کسی دوسرے کے کنٹرول میں۔ جب آپ victim کے دائرے سے نکل کر ایکشن کے دائرے میں داخل ہوں گے تو آپ وہ کرنے کے قابل ہوجائیں گے جس سے آپ اپنے من چاہے نتائج تخلیق کرسکیں۔ آپ کا یہ گلہ ختم ہوجائے گا کہ میرے برے حالات کے ذمے دار فلاں فلاں لوگ یا فلاں فلاں واقعات ہیں۔
بدقسمتی سے آج زیادہ تر لوگ کسی دوسرے فرد یا واقعہ کی وجہ سے مسائل کا شکار نہیں، بلکہ خود اپنے منفی خیالات کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اپنے منفی خیالات کی وجہ سے وہ یہ یقین کر بیٹھے ہیں کہ جب تک فلاں افراد اور فلاں حالات درست نہیں ہوں گے، تب تک ان کی زندگی بھی بہتر نہیں ہوسکتی۔ حالانکہ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جو وہ خود سے بولتے ہیں اور دن رات بولتے رہتے ہیں۔ افسوس کہ انھیں اس کا ادراک بھی نہیں ہوتا کہ ایسا کرکے وہ اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔
یہاں خیالات کے حوالے سے ایک اہم نکتہ سمجھ لیں کہ اگر آپ کے اندر جو خیال یا سوچ موجود ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سچ اور حقیقت ہے۔ اس بات کو دوبارہ سمجھیں۔ آپ کے ذہن میں جو خیال پایا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ایک عام آدمی کے ذہن میں ایک دن میں اوسطاً ستر ہزار خیالات پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے نوے فیصد خیالات گزشتہ دن کے خیالات کی مانند یعنی پرانے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کے خیالات کا آپ کی منزل سے کچھ تعلق ہوتا تو آپ اپنی زندگی کو بدل نہیں سکتے تھے کیونکہ ایک جیسے خیالات سے ویسے ہی انتخاب کیے جاتے ہیں اور جیسا انتخاب یعنی چوائس ہوتی ہے، ویسا ہی عمل یا برتاو اختیار کیا جاتا ہے۔ جیسا برتائو ہوتا ہے، ویسے ہی حالات کا تجربہ آپ زندگی میں کرپاتے ہیں۔ پھر یہی تجربہ آپ کے انہی جذبات کا باعث بنتا ہے۔ اور پرانے جذبات پرانے خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ اس طرح، یہ چکر چلتا رہتا ہے۔ پرانے خیالات، پرانے تجربات، پرانے جذبات، پرانے نتائج۔
یہی وجہ ہے کہ مراقبہ کرنا بہت ضروری ہےتاکہ آپ کو پتا چل سکے کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں اور کیسے ان کے مطابق عمل کررہے اور محسوس کررہے ہیں۔ آپ اپنے خیالات پر جتنا زیادہ آگاہ ہوں گے، اتنے زیادہ آپ اپنے ان چاہے خیالات سے پیچھا چھڑا سکیں گے۔ عام زندگی میں ہمارے دماغ میں جو خیالات چل رہے ہوتے ہیں چونکہ ہم ان سے آگاہ نہیں ہوتے اس لیے ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ کتنے منفی اور تباہ کن خیالات ہمارے دماغ میں چلے گئے اور پھر وہی خیالات زندگی کے تجربات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
مراقبہ ہمارے رب کا وہ واحد آلہ ہے جو ہمیں اپنے خیالات سے آگاہ ہونے کے قابل کرتا ہے۔ مراقبہ کی مدد سے آپ اپنے خیالات سے، پھر اپنے عمل یا برتاو سے، پھر اپنے جذبات سے واقف ہوپاتے ہیں۔ جب آپ اپنے پرانے خیالات و جذبات وغیرہ سے آگاہ ہوتے ہیں تبھی آپ کو ان سے متاثر ہونے سے بچنے کا موقع ملتا ہے۔ اس لمحے آپ نیا سوچنا شروع کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اور جب آپ نئے خیالات سوچنا شروع کرتے ہیں تو آپ اپنے جسم کو نئی مثبت جذباتی کیفیت میں لانے کی کنڈیشننگ کرتے ہیں۔
اگر آپ نئی مثبت جذباتی کیفیت میں لانے کی مشق کافی عرصہ تک کرتے رہیں تو آپ اس نئی جذباتی کیفیت سے مانوس ہوجائیں گے اور آپ کے اندر ایک نیا سیلف تخلیق پاجائے گا۔ نئے سیلف کو یوں سمجھیں جیسے آپ نے اپنے اندر ایک نیا باغ اگالیا ہے۔
سب سے پہلے آپ کو جڑی بوٹیوں، جھاڑیوں اور چٹانوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ پھر آپ کو پچھلے سال کے کانٹے دار پودوں کو اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اس کے بعد آپ کو ذہن کے اس باغ کی مٹی تیار کرنی ہے۔ تبھی آپ نئے خوشبودار اور پھل دار پودے لگانے کا کام شروع کرسکتے ہیں۔ یہ اسٹیپ بائے اسٹیپ پراسیس ہے۔ مراقبہ بنیادی طور پر اسی طرح کام کرتا ہے۔ گویا، مراقبہ پہلے آپ کے ذہنی باغ میں پائے جانے والے ماضی کے منفی خیالات کی جھاڑیوں اور بوٹیوں کو اکھاڑتا ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد اگر آپ باقاعدگی سے مراقبہ کرتے رہتے ہیں تو ذہنی باغ کی زمین کو ہم وار کرتا ہے۔ پھر نئے مثبت خیالات کے بیج بوتا ہے۔
اور یہ بات سمجھ لیں کہ یہ کوئ آسان کام نہیں ہے کہ آپ روزانہ ایک طے شدہ وقت پر بیٹھیں اور مراقبہ کریں ۔ مراقبہ کا عمل ایک جنگلی جانور کو سدھارنے جیسا کام ہے۔ آپ جانور کو صرف یہ کہہ کر کہ ’’بیٹھ جائو‘‘ بٹھا نہیں سکتے۔ اس کیلئے آپ کو شروع میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ آپ کی سوچ کا جنگلی جانور آپ کے قابو میں نہیں آئے گا۔ آپ کو بار بار اسے پکڑ کر لانا ہوگا۔ اسے بٹھانا ہوگا۔ اسے ٹرین کرناہوگا۔ جب صبح آٹھ بجے آپ مراقبہ کیلئے بیٹھنے لگیں گے تو آپ کا جسم آپ سے کہے گاکہ ارے میاں، اس وقت تو تم ای میل چیک کرتے ہو۔ فلاں وقت تم غصہ کرتے ہو۔ لیکن، اس وقت تو تم کچھ نہیں کررہے۔ بس، خاموشی سے بیٹھے ہوئے ہو۔ تمہارے سارا شیڈیول ڈسٹرب ہورہا ہے۔ تم برسوں سے جو کرتے آئے ہو، اس معمول کو کیوں خراب کرتے ہو۔
لیکن پھر ایک دم آپ خود کو بدلتے ہیں۔ چوکس ہوجاتے ہیں۔ اور آپ کا جسم دماغ کو سگنل بھیجنا شروع کردیتا ہے۔ دراصل وہ اس غیر متوقع موقع پر متعلقہ کیمیکلز کا متلاشی ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ آپ اس کےساتھ اچھا کررہے ہیں۔ اسے اس سے غرض ہےکہ اس کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، وہ نیا ہے جس سے وہ مانوس نہیں۔ اس کیلئے یہ اجنبی ہے۔
ہر بار جب آپ اس سے آگاہ ہوتے ہیں کہ آپ کا جسم کیا کررہا ہے اور اپنی توجہ لمحہ موجود پر لاتے ہیں تو اس طرح آپ اپنے جسم کو یہ بتاتے ہیں کہ اب ذہن تمہیں نہیں چلارہا۔ اب آپ اس کا ذہن ہیں۔ آپ اس کی پرانی پروگرامنگ سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوچکے ہیں۔ اور اگر آپ بار بار بار بار باربار یہ مشق کرتے رہتے ہیں تو ایک سَدھائے ہوئے گھوڑے کی طرح آپ کا جسم اور ذہن بھی اس نئی ترتیب سے مانوس ہوجاتا ہے۔ آپ کا جسم اپنی مزاحمت چھوڑدیتا ہے اور آرام سے بیٹھ کر آپ کے حکم کی پیروی کرنا شروع کردیتا ہے۔
یہ کیفیت آپ کی توانائ کی آزادی ہے۔ آپ مادے سے توانائ کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔ اور، خود کو ان جذباتی کی زنجیروں سے آزاد کرلیتے ہیں جنھوں نے آپ کو زمانے سے مانوس منفی ماضی میں جکڑ رکھا تھا۔
اگر آپ یہ کام کرنا شروع کردیں تو صرف اگلے سات دن کے اندر اندر آپ اپنی زندگی میں فرق دیکھنا شروع کردیں گے۔ آپ کو اکثر معلوم ہونا شروع ہوجائے گاکہ آپ کب کب منفی خیالات سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس طرح، آپ اپنی ناخوش شخصیت اور مایوس طبیعت سے بچنے کے قابل ہوجائیں گے۔ یہ مراقبہ آپ روزانہ باقاعدگی کے ساتھ جاری رکھیں یہاں تک کہ آپ کے مستقبل کی حقیقت آپ کے حال کی حقیقت بن جائے۔
اپنی زندگی کو بدلنا چاہتے ہیں؟
مراقبہ سیکھنے کیلئے درج ذیل فون نمبر رابطہ کیجیے
03112427766