مصروف مائیں مائنڈفلنس کیسے کریں؟

ایک مصروف مسلمان ماں کے تجربات
صرف دس منٹ مائنڈفلنس
سائرہ صدیقی، امریکا
میں واقعی یہ خواہش کرتی ہوں کہ میں ایک اچھی ماں بن جائوں، لیکن مجھے نہیں معلوم کیسے؟ …میں اپنے بچوں سے مختلف انداز سے بات کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں ہر بار اس سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں۔  … مجھے اکثر لگتا ہے کہ کسی نے فاسٹ فارورڈ کا بٹن میرے اندر لگادیا ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ کیسے خود کو آہستہ کروں۔ …  مجھے ایسا لگتا ہے کہ اندر سے مرگئی ہوں۔ میرے اندر سے ایمان ہی ختم ہوگیا …  ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میںمیری خواہش رہتی ہے کہ میں کروں۔ کاش، میں خود کو بدلوں۔ لیکن، اس کیلئے مجھے وقت ملتا ہے اور نہ توانائی پاتی ہوں۔
ایسا ہی ہے ناں؟ میرا کام مائوں سے باتیں کرنا ہے اور میں بتا نہیں سکتی کہ کتنی ہی بار اُن سے باتیں کرتی ہوں۔ میں جن مائوں سے بات کرتی ہوں، آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کتنی ہی مرتبہ اس قسم کے جملے سننے کو ملتے ہیں اور وہ کتنی ہی مرتبہ میں خود بھی یہ باتیں کرجاتی ہوں۔ میرا یہ یقین ہے کہ ماں کے اندر وہ قوت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو بدل سکتی ہے۔ مائوںمیں وہ طاقت ہوتی ہے جو بڑی بڑی فوجوں اور اسلحہ برداروں کے پاس ہی ہوتی ہو۔ کیسے؟ وہ اپنے بچوں کو بدلنے کا آغاز کرکے یہ کام شروع کرسکتی ہیں۔ اور جب میں اپنے گرد مائوں کو دیکھتی ہوں تو میں انھیں تھکا ماندہ اور پست ہمت پاتی ہوں۔ بیش تر مائیں اپنی بہترین شخصیت کے ساتھ زندگی نہیں گزار رہیں اور زیادہ تر مائیں اپنے اندر موجود خوبیوں کو استعمال نہیں کررہیں۔
اس تحریر میں، میں یہ بتانا چاہوں گی کہ ہم کیسے تبدیلی لاسکتے ہیں، کیسے خود کو بہترین بناسکتے ہیں تاکہ بہترین ماں، بیوی، بیٹی،بہن اور سب سے بڑھ کر اللہ کی بندی بن سکیں۔ میں یہاںچند عملی مشورے اپنی بہنوں، خاص کر مائوں کیلئے پیش کروں گی کہ وہ کیسے اپنے کردار کو موثر بناسکتی ہیں۔

میرے مائنڈفلنس منٹ کی ضرورت مائوں کو کیوں ہے؟

میرے مائنڈفل منٹ۔ ہم سب کو اس کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں کبھی بھی اتنا وقت نہیں ملے گاکہ بہ آسانی اپنے لیے وقت نکال پائیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مائوں کے ساتھ ہے۔ ہم ساری زندگی اسی چاہت میں گزاردیتے ہیںکہ ہم اپنے لیے مزید وقت نکال سکیں۔ لیکن، کاموں کی لمبی فہرست کے باعث ہم ایسا نہیں کرپاتے۔ کیوں کہ ہم سے زیادہ کئی اہم تر کام ہوتے ہیں جو اگر وقت ملے تو انھیں کرنے میں مصروف ہوجائیں اور ہم پھر رہ جائیں گے۔
اگر میں آپ سے کہوں کہ دس منٹ آپ گھر کا کوئی بھی اہم کام کرنے کی بجائے کچھ بھی نہ کریں تو آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ میری بات مانیں گی؟ حالانکہ روزانہ دس منٹ اپنے اوپر خرچ کرکے اور ان دس منٹ میں کچھ نہ کرکے، آپ کہیں زیادہ پیداواری (پروڈکٹو) ہوسکتی ہیں۔ ان دس منٹ میں آپ صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچیں گی (اور کچھ نہ سوچنا چاہیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے۔)  یوں، باقی دن میں آپ اپنے سوچنے کا انداز بدل سکتی ہیں۔

کیا دس منٹ اس کیلئے کافی ہوں گے؟

آئیے، اس کی تفصیل میں جاتے ہیں کہ ہمیں کیوں ’’میرے دس مائنڈفل منٹ‘‘ کی ضرورت ہے؟
1 اس سے آپ کو دنیا کے بارے میں سوچنے اور اس کے بارے میں اپنا نقطہ نظر قائم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ شور سے بھری دنیا میں خاموشی اَن مول ہے۔ ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا بڑھتا جارہا ہے اور زندگیاں مصروف سے مصروف تر ہوتی جارہی ہیں۔ جوں جوں اس میں اضافہ ہورہا ہے، ہمارے لیے خاموشی کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ اپنے تئیں کچھ دیر خاموشی میں رکھنے سے ہمیں موقع ملتا ہے کہ ہم سوچیں کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں۔ اس دوران اپنے مسائل پر غور کرسکتے ہیں اور کھوج سکتے ہیںکہ ہمارے لیے کس مسئلے کی بابت کون سا فیصلہ درست ہوگا۔ یا پھر، شدید ذہنی کرب (اسٹریس) کی صورت میں خود سے باتیں کرسکتے ہیں۔
2 مائنڈفل منٹ کے دوران ہمیں تحریک ملتی ہے۔ ایک نوبیل انعام یافتہ جان اپڈائیک کہتے ہیں، ’’ہمارے دن کا زیادہ تر حصے میں ایسے لمحات ہونے چاہئیں کہ جن کے دوران حقیقی انسپائریشن آئے۔‘‘ اور یہ تبھی ہوتا ہے کہ جب ہم تنہا ہوں، صرف اپنے ساتھ۔
3 تنہائی کا وقت دماغ کے آرام کا وقت ہوتا ہے۔ جب آپ سوتی ہیں تو آپ کا بدن وقفہ کرتا ہے اور اپنی مرمت کرتا ہے۔ جب ہم درکار مقدار میں نہیں سوتے تو ہمارے جسم کام کی زیادتی کے باعث بیمار پڑجاتے ہیں۔ جسم کی طرح ہمارے دماغ کو بھی آرام کے وقفوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آرام اس مائنڈفل منٹوں کے درمیان مل سکتا ہے۔ تنہا رہنے سے ہمارے ذہنوں کو اپنی توانائی بحال کرنے میں مددملتی ہے جو بہت زیادہ کاموں کی وجہ سے ختم ہونے کو آجاتی ہے۔ سارا دن کام کرتے رہنے سے جیسے دماغ تھک جاتا ہے، ایسے ہی ذہن بھی تھکتا ہے اور اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔
4 تنہائی کا شعوری وقت آپ کے نقطہ نظر کو بھی بدلتا ہے۔ اس دوران پیچھے ہٹ کر مسئلے کو بڑے پردے پر جانچنے کا موقع ملتا ہے۔ تنہائی میں بیٹھ کر سوچنے سے ہم غیر ضروری سوچ سے رک جاتے  ہیں اور زندگی کی مختلف رکاوٹوں کی اہمیت اور قوت کو سمجھتے ہیں۔ جب آپ دوبارہ اپنے کام شروع کرتے ہیں تو زندگی خاصی سست لگتی ہے۔
یہ باتیں تو سب اپنی جگہ لیکن، ماںکی حیثیت سے کیا آپ خود کو یہ فائدے حاصل کرنے کیلئے خود کو دس منٹ کیلئے فارغ کرپائیں گی؟ لیکن، آپ کتنی مصروف ہوں، ناممکن کچھ بھی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر ماں، خواہ وہ کتنی ہی مصروف ہو، اگر صدقَ دل سے چاہے تو اپنے لیے دن کے چوبیس گھنٹے (چودہ سو چالیس منٹ) میں اپنے لیے دس منٹ نکال سکتی ہے۔ ہم سب اس بات کا گلہ کرتے ہیں کہ وقت ہمارے ہاتھوں سے نکلا جاتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ دن میں بہت سے ایسے اوقات آتے ہیں جنھیں ہم اس مقصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ جیسے، بچے کھیل کود میں مشغول ہوں تو آپ ٹیوی دیکھنے یا موبائل کے پیغامات پڑھنے میں لگ جاتی ہیں۔ یقین مانئے گا، دن بھر میں صرف اور صرف دس منٹ اپنے لیے نکال لینے سے آپ کا پورا دن بہت ہی خوش گوار اور پیداواری گزرے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *