کام کیلئے موٹیویشن کی ضرورت نہیں
جیمس کلیئر کی کتاب ’’اٹامک ہیبٹس‘‘ سے انتخاب
موٹیویشن کا لفظ معاشرے میں اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب لوگ کچھ کرنے کیلئے صرف موٹیویشن کے منتظر رہتے ہیں اور موٹیویشنل اسپیکرز اس لفظ کے الفاظ میں خوب مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں لفظ motivation اور Motivational Speaker اتنے غلط اور بھونڈے انداز سے استعمال کیے گئے ہیں کہ موٹیویشنل اسپیکرز کی موٹیویشن اور حقیقت کا دُور کا تعلق بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، پوری دنیا میں یہ وبا ایک ساتھ پھیلی ہے۔ اسی وجہ سے شخصی نمو کے بین الاقوامی ماہرین اور مولفین نے اس پر بہت کچھ لکھنا شروع کردیا ہے۔ یہ الگ بات ہےکہ پاکستان میں اُردو زبان میں یہ مواد کم ہی منتقل کیا گیا ہے۔ذیل میں اس حوالے سے جیمس کلیئر کی تحریر سے چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں۔ *** ہم سب کے اہداف ہوتے ہیں۔ جب ہم ان کے بارے میں سوچتے یا انھیں دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے یہی سوال اٹھتا ہے کہ ہم یہ اہداف کیسے مکمل کرسکتے ہیں؟ اس کا سب سے آسان اور عام جواب دیا جاتا ہے: تحریک۔ موٹیویشن۔ لیکن، آپ کو حیرت ہوگی کہ آدمی کو اپنے اہداف کی تکمیل کیلئے موٹیویشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں آپ کو یہ حیرت انگیز بات بتانے والا ہوں کہ کیوں آپ کو اپنے اہداف کی تکمیل کیلئے موٹیویشن درکار نہیں ہے۔ اس کی بجائے ایک اور سادہ لائحہ عمل ہے جو حقیقتاً بہت ہی کارگر ہے۔ یہ ایک عملی لائحہ عمل ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہےکہ اس پر عمل کرکے آپ اپنی کامیابی کے حصول کے امکات کو دو گنا بلکہ تین گنا کرسکتے ہیں۔ یہ بات کئی تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے۔ آئیے، آپ کو ہم اس بارے میں بتاتے ہیں۔ ورزش کو عادت کیسے بنایا جائے؟ چلیں، بہت سوں کی طرح آپ بھی جسمانی کسرت یعنی ورزش اپنی مستقل مصروفیات میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ اکثر افراد کے اندر ورزش کرنے کی تحریک یعنی موٹیویشن پائی جاتی ہے۔ جو لوگ اپنے اہداف پر قائم رہتے ہیں وہ ’’ایک کام‘‘ دوسروں سے بہت مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ وہ ایک کام کیا ہے جو یہ کامیاب افراد کرتے ہیں؟ ماہرین کی تحقیقات پر نظر ڈالتے ہیں۔ دو ہزار ایک میں برطانوی محققین نے دو سو اڑتالیس افراد پر کام کرنا شروع کیا تاکہ وہ اگلے دو ہفتے میں اپنے اندر جسمانی کسرت کی عادت کو بہتر کرلیں۔ ان افراد کو تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا گروپ ’’کنٹرول گروپ‘‘ تھا۔ ان سے صرف اتنا کہا گیا کہ وہ جب بھی ورزش کریں، بس اپنی ورزش کے اوقات اور تعداد کو تحریر کرلیں۔ دوسرا گروپ ’’موٹیویشن گروپ‘‘ تھا۔ اس گروپ سے کہا گیا کہ وہ نہ صرف اپنی ورزش کے معمولات کو تحریر کریں گے بلکہ خود کو ورزش کیلئے موٹیویٹ کرنے کیلئے ایسا مواد بھی پڑھیں گے جن سے انھیں ورزش کے فوائد کا پتا چلتا رہے۔ ماہرین اس گروپ کے شرکا کو خود بھی بتاتے رہے کہ ورزش کرنے سے ان کی صحت پر کتنے خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تیسرا گروپ اُن افراد کا تھا جنھیں دوسرے گروپ والوں کی طرح معلومات فراہم کی گئیں تاکہ ان کے اندر بھی دوسرے گروپ کے برابر موٹیویشن باقی رہے۔ تاہم انھیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے لیے ایک منصوبہ بھی شیڈیول کریں کہ اس ہفتے کب کب ورزش کریں گے۔ ابتدائ طور پر، تیسرے گروپ کے ہر فرد نے درج ذیل جملہ مکمل کیا: ’’اس ہفتے کے دوران میں … [دن] کو … بج کر … منٹ [وقت] پر … [مقام] پر کم از کم بیس منٹ کی شدید ورزش کروں گا۔‘‘ درج بالا ہدایات کے بعد تینوں گروپ کے شرکا اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ موٹیویشن بہ مقابلہ نیت: حیران کن نتائج پہلے اور دوسرے گروپ کے شرکا (35 سے 38 فیصد) نے کم از کم ہفتے میں ایک دن ورزش کی۔ درلچسپ بات یہ ہے کہ دوسرے گروپ کو جو موٹیویشن دی گئی تھی، اس کا اُن کے برتائو پر عملی طور پر کوئ اثر نہیں ہوا تھا۔ لیکن تیسرے گروپ کے 91 فیصد شرکا نے فی ہفتہ کم از کم دو پہلے گروپوں سے تین گنا زیادہ ورزش کی تھی۔ محض ورزش کا شیڈیول بنانے اور ورزش کی منصوبہ بندی کرنے سے ان کا نتیجہ غیر معمولی طور پر پہلے اور دوسرے گروپ سے کہیں بڑھا ہوا تھا۔ اس تحقیق کے بعد یہ حقیقت سامنے آئ کہ صرف ورزش کی سادہ منصوبہ بندی نے تیر بہ ہدف کام کردکھایا۔ لیکن موٹیویشن کسی کام نہ آئ۔ پہلے گروپ (کنٹرول گروپ جسے ورزش کیلئے کوئ موٹیویشن نہیں دی گئی تھی) اور دوسرے گروپ (جسے ورزش کیلئے خوب موٹیویشن دی گئی تھی) کے شرکا کے ورزش کرنے کا لیول یکساں تھا۔ ڈیلی کامیابی وٹسیپ گروپ میں شمولیت کیلئے اس نمبر پر اپنے نام اور شہر کے ساتھ وٹسیپ کیجیے 03112427766