انتخاب اور ترجمہ: حسن ترمذی
ذرا سا مڑ کر دیکھیں ۔ اُس ہستی کو یاد کریں جس نے آپ کا ہاتھ پکڑا تھا چند قدم دور آپ کو تھامنے کیلئے ایک اور
مہربان موجود۔
اور
یوں آپ کو پہلا قدم اُٹھانا سکھایا گیا۔
دوسوال
وہ ہستیاں اب کہاں ہیں؟
اور آپ کو مڑ کر دیکھنے میں اتنی دِقت کیوں ہو رہی ہے؟
وہ ہستی اب آپ خود ہیں بہت سوں کیلئے
اور مڑ کر دیکھنے میں دِقت کی وجوہات دو ہیں۔
ایک تو یہ کہ مڑ کر کل کو دیکھتے ہوئے دل دُکھتا ہے کہ
تب میں توانائی اور شباب سے بھرپور تھااور کئی آنکھوں کی امید ۔ خواب جوان اور بہت سوں کی امیدیں زندہ تھیں۔ آج میں
خود دوسروں سے امیدیں لگائے بیٹھا ہوں۔ یہ جذباتی تبدیلی کوئی اتنی آسان نہیں۔
دوسرا یہ کہ مڑنے کی اجازت کمر بھی نہیں دیتی۔ ٹانگیں اور کندھے سخت ہوگئے ہیں۔ آسان سا کام بھی
پہاڑ لگتا ہے۔
مگر یاد رہے کہ اس حالت میں بھی آپ اکیلے تو نہیں۔ اور نہ ہی آپ نے تھامنے والے ہاتھ کی طرف کوئی توجہ
کی ہے۔
زندگی کے ہر موڑ پر آپ نے نئے سے نئے کام سیکھنے کیلئے رہنمائی حاصل کی۔ والدین،
اساتذہ، دوست احباب،مربی، اور تو اور زمانہ سب سے بڑا استاد ہے۔
سیکھنے کیلئے پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ ہم سیکھنا
چاہتے ہیں اور اس تبدیلی کو قبول کرنا چاہتے ہیں۔
مگر
یہ کم بخت عمر اس کے ڈھلنے کو کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں تو کام چلے گا کیسے؟
آئیے،
نرم دلی سے، خوش دلی سے ، پیار سے گزرتے وقت کو قبول کریں اور ایک نیا قدم جیسے
اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھایا تھا، ویسے ہی بے بی اسٹیپ سے ایک نیا سفر، ایک نئی
زندگی۔
ایک
روشن کل۔
کوئی
سخت ڈسپلن نہیں۔
کوئی
وقت کی قید نہیں۔
اگر آپ سپاہی تھے بھی تو اَب کوئی سپاہیانہ
قواعد نہیں۔ بس بڑھتے چلے جانا سبک روی
سے۔مزے مزے سے۔
یقین کیجیے، دنیا کو آپ کی بہت ضرورت ہے مگر ایک
جہاں دیدہ شخص کی نہ کہ ایک مصنوعی جوان کی۔
کہا جاتا ہے کہ تجربہ کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا اور آپ ہی وہ واحد شخص ہیں جو لانگ کٹ گزار کر آیا ہے ۔ آپ جیسا کوئی
اور نہیں۔ آپ کی حکمت اَن مول ہے۔ اسے “ ابھی تو میں جوان ہوں “کے نعروں میں ضائع نہ کیجیے ۔ اِس
کام کے لئے حفیظ جالندھری کافی ہیں ۔
بے بی اسٹیپ اس لیے بھی ضروری ہیں کہ آپ اپنا
بچپن واپس لا سکیں۔چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپ کے محسوسات میں تبدیلی لا سکتی ہیں۔دوبارہ سے اُسی آزادی سے زندہ رہنے میں مدد کر سکتی ہیں جس کے
آپ بجا طور پر مستحق ہیں۔
پہلا قدم
شاید آپ کو یاد ہو کہ بچوں کو بڑھنے کیلئے ایک لمبی نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن بڑھتی
عمر میں خود کو قائم رکھنے کیلئے اچھی نیند ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جوانی
میں یہ کوئی عیاشی ہو مگر اب یہ ضرورت ہے۔
سو پہلا قدم اچھی اور پُرسکون نیند۔
یہ شفا بخش ہے
سکون دیتی ہے
دماغ اور یادداشت کو تیز کرتی ہے
مزاج اچھا رہتا ہے
اور تمام جسم کو، اپنے آپ کو روز کے روز اووَرہال کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔
جب کہ نیند پوری نہ ہونے کی صورت میں۔ تمام
رات کروٹیں بدلتے گزرے تو صبح دھندلی ، بوجھل اور مشکل طلوع ہوتی ہے۔
خوش قسمتی سے اچھی نیند کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا ہوتی۔
بس گھنٹہ بھر پہلے روشنیاں کم اور مدھم کرنا,
ٹی وی اور اسکرین سب بند کرنا
پُرسکون کمرے میں آہستہ چند گہرے سانس
اور جسم کو اطلاع کہ
اب آرام کا وقت ہے۔
یقیناًآپ اچھی نیند کے حق دار اور کل صبح تازہ دم اور روشن دن کے مستحق ہیں ۔لیکن اس کیلئے آج کر کیا سکتے ہیں؟
نہ صرف زندہ رہنے کیلئے بلکہ اس سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے کیلئے۔
دوسرا قدم
زندگی پانی سے شروع ہوئی تھی اور آپ کی نئی زندگی،
یعنی آج کا دن بھی اسی سے شروع ہونا چاہیے۔
کیا کبھی سنا ہے؟
SMALL IS BEAUTIFUL
زندگی کا حسن چھوٹے چھوٹے معمولات میں ہے۔ نئی زندگی کو اُن سے سجائیے۔استقبال کیجیے صبح کی پہلی کرن کا، تھوڑی سی کُھلتی ہوئی کھڑکی ،نسیم صبح کا جھونکا اور تازہ پانی کا
ایک مہربان گھونٹ کا۔نہایت سادہ
لیکن
اچھی نیند سے لطف اندوز ہونے کے بعد آپ کا جسم وجاں ایک باغ کی مانند ہوتا ہے جو
کہ بارش کا انتظار کررہا ہے۔ وہ مرمت ہوچکا، شفا پا چکا۔ اب منتظر ہے آپ کا کہ آپ اسے سیراب کریں تاکہ وہ آپ کو ایک ثمر بار دن دے سکے ۔
ایک نیم گرم پانی کا گلاس بڑی ہی سہولت سے آپ کے جسم کو بیدار کرتا ہے۔ ہاضمہ درست، فاسد مادے خارج اور
رگ و پٹھے نرم کر کے آپ کی حرکات کو آسان بناتا ہے۔ ایسا کرتے ہی آپ کا جسم جیسے آپ کا شکر گزار ہو رہا ہے۔ شکریہ آپ نے مجھے یاد رکھا۔ کوئی خاص مہنگے مشروبات یا سپلیمنٹ نہیں بلکہ صاف اور سادہ زندگی بخش پانی کا گلاس۔ اور کوئی ضروری نہیں کہ اُٹھتے ہی خود کو چار چھ گلاس پانی سے لاد دیں، بلکہ یقین کریں کچھ بھی اپنے ساتھ مجبوری سے کرنے کی ضرورت نہیں۔ بس آہستہ آہستہ نرمی سے اپنا خیال رکھیں۔ اور اگر ہوسکے تو اپنے بستر کے پاس ہی ایک گلاس رکھیں۔
اور دن میں بھی اگر کسی وقت آپ گرانی (بوجھل پن )محسوس کریں تو پہلا سوال خود سے یہ کریں کہ کیا آپ نے آج مناسب مقدار میں پانی پیا ہے؟ یہ آپ کے ذہن کو تازہ ، سرگرانی کو کم اور دھڑکن کو ہموار بنا سکتا ہے۔
اپنے جسم کو ایک گلاس پانی کا انعام دیجیے۔بس ایک ہی گلاس پانی ایک وقت میں۔
تیسرا قدم
دنیا نے آپ کی بہت سی حرکتیں دیکھی ہیں ۔ اکثر مجبوراً مگر اب ضرورتاً حرکت میں رہیں۔
حرکت میں ہی برکت ہے اور آپ تو عمر کی بڑی بابرکت اسٹیج پر ہیں۔ خود کو حرکت سے محروم نہ کیجیے۔
اکثر ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم کتنی دیر بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم پڑھنے کیلئے، کھانے کیلئے، آرام کیلئے بیٹھتے ہیں تو پھر بیٹھ ہی جاتے ہیں۔ اچانک پتا چلتا ہے کہ آدھا دن تو گزر بھی گیا اور ہم بیٹھے کے بیٹھے ہی رہ گئے ۔
آرام ضروری ہے، مگر بہت دیر ساکت رہنا ہماری صحت پر بہت مضر اثرات ڈالتا ہے۔ دوران خون بے قاعدہ ، ٹانگیں سخت اور کمر جواب دے جاتی ہے۔ چلنا تو بہت بعد کی بات ہے، صرف کھڑے ہونے میں بھی دشواری ہونے لگتی ہے۔
لیکن
اچھی بات یہ ہے کہ خود کو فعال اور صحت مند رکھنے کیلئے آپ کو کسی میراتھن میں حصہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں،بلکہ چند ہلکے پھلکے معمولات بہت کافی ہیں جیسے اگر سب نہیں تو مناسب موسم کے مطابق کچھ نہ کچھ نمازیں مسجد میں ، ایک آدھ چکر قریبی مارکیٹ کا۔ٹی وی دیکھ رہے ہیں تو اشتہارات کے دوران ایک آدھ دفعہ کھڑے ہوجانا یا بیٹھے بیٹھے ایڑیاں اور انگلیاں اُٹھانا اور ہلانا۔
اہم بات شدت نہیں، بس مستقل مزاج ضرور رہنا ہے۔ جب بھی آپ کھڑے ہوتے ہیں، چند قدم چلتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو پیار سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ ابھی میں زندہ ہوں اور میرا انتخاب زندگی اور حرکت ہے ۔
تو آخری بار کب آپ نے اپنے آپ کو پیار کیا تھا؟
ذرا کھڑے ہو کر یاد کیجیے۔ چند قدم اُٹھائیں گے تو آپ کو یاد آجائے گا۔
چوتھا قدم
لے سانس بھی آہستہ
سکون کیجیے۔ دماغ کو آرام دیجیے۔
دل کھول کر اور پھیپھڑے بھر کر گہرے سانس لیجیے۔
آلودگی نہ صرف فضا میں بلکہ ہر طرح کی بہت بڑھ گئی ہے۔ اِس میں صوتی آلودگی شامل ہے اور ذہنی بھی۔ دنیا بہت شور مچاتی ہے۔ شاید وہ خاموشی سے ڈرنے لگی ہے۔ نہ
صرف آواز بلکہ خیالات کا شُترِ بے مُہار ہونا، فکروں کا بے کِنار ہونا، اِن سب مصیبتوں میں ایک چیز تو آپ کے قابو میں ہے۔ وہ آپ خود ہیں ۔ اور آپ کا سانس۔
جب بھی زندگی ذرا بوجھل لگے تو کہیں آرام سے بیٹھیں۔
آنکھیں بند۔
ایک آہستہ اور گہرا سانس۔
چند لحظہ روکیں ۔پھر چھوڑیں۔
ایک سانس اور پھر آہستہ آہستہ چھوڑیں۔
ہر سانس آپ کو زندگی کی یاد دلائے گا۔
گہرے سانس لیجیے۔
یہ
صرف ایک آرام کا طریقہ ہی نہیں بلکہ ایک شفا بخش عادت بھی ہے۔ یہ آپ کا اعصابی
تناؤ کم کرتا ہے۔ دل کی دھڑکنوں کو معمول پر لاتا ہے۔ خیالات کو صاف اور جسمانی کشیدگی کو کم کرتا
ہے۔ یہ عمل جسم کو دی سیٹ کرنا بھی کہا جاسکتا ہے ۔لیکن حقیقت میں یہ آپ کی روح کے
ساتھ ایک “ جادو کی جَپِھی “ جیسا ہے۔
اور
سب سے اچھی بات یہ کہ آپ اسے کہیں بھی، کبھی بھی کر سکتے ہیں۔ آرام کرنے سے پہلے،
برتن دھوتے ہوئے، ٹی وی دیکھتے ہوئے۔
تو
پیارو! آخری بار کب آپ نے خود کو جپھی ڈالی تھی؟
آپ اس سکون کے، اس نرمی کے، اور خاموش انعام کے حق دار ہیں۔ دیجیے خود کو
انعام۔
جاری ہے۔