ایک دوست نے سوشل میڈیا اپنے ایک مرحوم دوست کی تصویر شیئر کی اور اس کے ساتھ لکھا کہ دفتر کا اسٹریس میرے دوست کو کھاگیا۔ ادارے وقت پر منصوبے کی تکمیل کا تقاضا کیا تھا۔ انتظامیہ کو رحم نہیں آیا، اس عجلت کے کرب نے ایک انسان کی زندگی چھین لی۔
یہ ہمارے ہاں کا عمومی مزاج ہے۔ ہم دوسروں کے مسئلے یا مشکل کو اس کی مجبوری یا لاچارگی سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد، فوری طور پر اس کے بارے میں ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر ’’جڑ‘‘ دیتے ہیں یا پھر ممکن ہو تو اپنے قریبی احباب سے گزارش کرتے ہیں کہ اس کی مدد کی جائے تاکہ وہ اس مسئلے سے نکل سکے۔
یہ ترس آمیز مزاج ہمارے معاشرے میں گہرائ تک سرایت کیے ہوئے ہے۔ پورا معاشرہ ایک دوسرے کو ’’ترس‘‘ کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔
اس تحریر کے بعد، اکثر لوگ مجھ پر یہ اعتراض کریں گے کہ ترس کو آپ ناپسندیدہ کیوں کہہ رہے ہیں؟ دراصل، ’’ترس‘‘ کا مزاج آدمی کو حقیقت شناس رہنے نہیں دیتا۔ جس پر ترس کھایا جاتا ہے، وہ اپنے بارے میں یہ سمجھنا شروع کردیتا ہے کہ میں بہت مجبور اور لاچار ہوں، لہٰذا وہ خود اپنے ہاتھ پیر ہلانے اور کچھ کرنے سے کتراتا ہے۔ وہ خود اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے کی بجائے دوسروں کی بیساکھی کا سہارا لینے کی جستجو میں رہتا ہے۔
اسی ترسی مزاج سے فائدہ اٹھا کر لوگ پیشہ وَر بھکاری بن چکے ہیں اور ایک بہت بڑا مافیا کئی عشروں سے پاکستان پر مسلط ہے۔ اس مافیا کو دن رات پروان چڑھانے کے ذمے دار وہ تمام ’’مخیر‘‘ اور ’’خدا ترس‘‘ لوگ ہیں جو دن میں کئی بار بھیک مانگنے والوں کو بھیک دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ’’ترس‘‘ کے مزاج کو کیسے ختم کیا جائے؟
آئیے، میں چند عملی اقدامات بتاتا ہوں۔
اول: ترسی مزاج کو چھوڑیے
دوم: اپنے جذباتی شدت میں بہہ جانے سے گریز کیجیے۔ یہ ایک مشکل مہارت ہے جو پختہ ہونے میں خاصا وقت لے گی
سوم: جب بھی کوئ آپ سے مدد کا طلب ہو یا اپنا مسئلہ بیان کرے تو پوری کوشش کیجیے کہ اس کی مالی مدد نہ کی جائے۔ زیادہ تر مسائل پیسے سے حل نہیں ہوتے، درست رہ نمائ سے حل ہوتے ہیں، اور یہی تعاون اور مدد کا مسنون طریقہ بھی ہے۔
چہارم: مدد اور تعاون کا آغاز اپنے قریبی رشتےداروں، جاننے والوں پھر دور کے رشتے داروں، جاننے والوں سے کیجیے۔ ہمارے قریبی لوگ (جو اکثر سفید پوش ہوتے ہیں) ہمارے تعاون سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ دُور پار کے لوگ (جو اکثر ضرورت مند نہیں ہوتے) اور جن سے مسئلے سے ہم حقیقتاً واقف بھی نہیں ہوتے، ہمارا پیسہ لے اڑاتے ہیں۔
پنجم: جیسے آپ اپنے پیسہ خرچ کرنے میں پوری تحقیق کرتے ہیں، ایسے ہی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والا پیسہ بھی بہت قیمتی ہے۔ اسے ایرے غیری نتھو خیرے کے سپرد کرکے اس صدقہ و خیرات کی بے توقیری مت کیجیے۔