ڈاکٹر محمد نسیم سرور کی ہمت آمیز، قابل تقلید داستان
تحریر: ڈاکٹر زبیر احمد نسیم
’’تاریخ صرف فتوحات گنتی ہے،وہ یہ نہیں دیکھتی کہ فاتح قوم نے کتنے وقت کھانا کھایا یا اس کے ناشتے کی میز پر جیم جیلی تھی یا نہیں؟‘‘ یہ اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مائرکے الفاظ کے ہیں جو اس نے اپنے انٹرویو میں ادا کیے۔اس انٹرویو میں اس نے بر ملا اعتراف کیا کہ تاریخ کایہ عظیم سبق میں نے اپنے دشمنوں [مسلمانوں ] کے قائداعلا سے سیکھا کہ جس کی وفات کے وقت زرہ گروی رکھوا کر سامان خورونوش کا بندوبست کیا گیا تھا، مگر اسی کے گھر میں تلوار یں بھی لٹک رہی تھیں، اور دنیا اسے جزیرہ عرب کے فاتح کی حیثیت سے جانتی تھی۔
نہ جانےکیوں، یہ واقعہ پڑھ کر اورسن میرے ذہین میں چند محنتی لوگوں کی تصویر آجاتی ہے کہ زمانہ انھیں ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے سبب جانتا ہے، مگر ان کی ان تھک جدوجہد سےناواقف ہے۔
انھی محنتی لوگوں میں سے ایک مولانا حافظ ڈاکٹر سید نسیم سرور بھی ہیں جن کی داستان علم اتنی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے کہ آج کے دَور میں یقین کرنا مشکل ہوتا ہے ۔سید نسیم سرور کی یہ داستان ان لوگوں کیلئے بھی بہترین مثال ہے جو عمل کرنے سے پہلے ہی یہ کہہ ڈالتے ہیں کہ جناب پاکستان میں محنت اور جدوجہد کا کوئی فائدہ نہیں۔محنت اور جدوجہد پر کامیابی کا ملنا اللہ تعالیٰ کے فطری قانون کا حصہ ہے، اور یہ قانون قیامت تک نہیں بدلنے کا۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، دراصل وہ لوگ خدا کی بجائے انسانوں سے اپنی کامیابی کا صلہ مانگتے ہیں۔
وہ ایک نوجوان لڑکا تھا جو ابھی میٹرک سائنس کے امتحانات دے کر ہی فارغ ہوا تھا کہ والد صاحب کی ریٹائرمنٹ کے سبب ایک بڑے گھر کی کفالت کا بوجھ اس کے ناتواں کندھوں پر پڑا۔ اس کے والد حیدری پوسٹ آفس میں ملازم تھے۔ حکومتی قانون کی رو سے بڑا بیٹا ہونے کے ناتے اسے اسی پوسٹ آفس میں ڈاکیے کی نوکری مل گئی۔اب اس کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو وہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح صبح نوکری پر جا کر شام کو واپس آتا اور دوسرے گریڈ میں ڈاک خانے کی ملازمت پر فائز ریتے ہوئے حالات کا رونا روتا رہتا۔ زمانے کے بے انصافیوں کو اپنی امنگوں کا قاتل قرار دیتا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دیگر عوامل کو اپنی ناکامی کو ذمے دار قرار دے کر خود بری الذمہ ٹھیرتا۔
دوسرا راستہ اس کے سامنے یہ تھا کہ وہ مصائب اور پرشانیوں کا صبرواستقامت سے مقابلہ کرتا اور اپنے عزم واستقلال اور جدوجہد مسلسل سے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود تک جا پہنچتا۔ بہت سے آسانی پسند لوگوں کے بر عکس اس دھان پان سے لڑکے نے جہد مسلسل کا راستہ اختیار کرلیا۔ پھر صرف15 سال کے عرصے میں دنیا نے دیکھا کہ وہی میٹرک پاس گریڈ 2 کا پوسٹ مین فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں امتیازی حیثیت سے کام یاب ہوکر ایر فورس کے کیڈٹ کالج میں لیکچر رتعینات ہوا۔
یہ باہمت شخص اب منگھوپیر کالج میں نسلِ نو کی راہنمائ کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور دسمبر 2016 بمقام فاران کلب میں منعقد ہونے والے فقہی سیمینار کے افتتاحی مقالہ نگار ’’مولانا حافظ ڈاکٹرسید محمد نسیم سرور‘‘ ہیں۔
یہ دوسرے گریڈ [پوسٹ مین شپ] سے سترھویں گریڈ [لیکچررشپ] کا منصب تحفے میں حاصل نہیں ہوگیا، بلکہ اس مختصر سےعرصے میں اس لڑکے نے خود کو منوایا۔ زمانے نے اسےحافظ قرآن بنتے ہوئے دیکھا۔ وہ انٹر گریجویشن میں بی کام میں جیسے محنت طلب مضامین میں کایاب ہوا۔ ایم اے اردو اور اسلامیات کی ڈگریاں اس کا مقدر بنیں۔ رابطۃ المدارس سے درس نظامی کاکورس مکمل کر کے عالم دین کہلانے کے اعزاز کا مستحق ٹھہرا۔ صرف اسی پربس نہیں ،کتنے ہی اعزازو اکرام ہیں کہ جو اس کے نصیب میں آئے اور میرِی نظر میں اس کا وہ بے لوث اور انتہائی درجے کا حامل خلوص ان سب ڈگریوں سے بڑھ کر ہے کہ جس نے مجھ جیسے کتنے ہی لوگوں کو جینے کا سلیقہ اور قرینہ سکھایا اور بے مقصد زندگی کو با مقصد گزارنے کا طریقہ اپنے نمونہ عمل سے بتایا۔
آج دنیا انہیں مولانا حافظ لیکچرار ڈاکٹرسید محمد نسیم سرور کی حیثیت سے جانتی ہے اور ان کی کامرانیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو ان اعزازات کے حصول میں آنے والی رکاوٹوں اور پریشانیوں سے واقف ہوں گے۔ گھر سے قربت کے باوجود مدرسے میں شامیں اور راتیں گزارنے سے کتنے لوگوں کو آگہی ہو گی۔ فجر سے بھی قبل اٹھ کر حفظ اسباق یاد کرنے ،پھر فجر کے بعد اسباق قاری صاحب کو سنانے، دفتری اوقات میں اپنی ذمے داری دیانت داری سے ادا کرنے اور پھر فارغ ہوتے ہی واپس جامعہ الفلاح [نزد بورڈ آفس ،کراچی] واپس آ نے اور بعد میں بھی آرام کرنے کی بجائے انٹر کامرس کی ٹیوشن پڑھنے اور پھر اپنے دوستوں سے ہی درس نظامی کی کتب کے اسباق پڑھنے اور اور سب سے بڑھ کر دیگر بچوں کو رضاکارانہ پڑھانے جیسے سخت ترین معمول سے تو بہت ہی کم لوگ واقف ہوں گے۔
چاہتےتو سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پرمقیم
پہلے کوئ پیدا تو کرے ایسا قلبِ سلیم