ننھا شیر
تحریر: ڈاکٹر یحییٰ نوری
ننھا شیر بڑے غصے میں تھا۔۔
اسکول کے راستے میں ایک لکڑ بگھوں کا غول مل گیا تھا۔۔
کچھ کتے بھی ان کے ساتھ تھے۔۔۔
وہ ننھے شیر اور اس کے ابا جان کا مذاق اڑاتے ان کے پیچھے آتے رہے۔۔۔
ننھا شیر چاہتا تھا کہ اس کے ابا ان سب کو جواب دیں۔۔۔
مگر ابا جان تو انہیں نظر انداز کر کے چلتے ہی چلے جا رہے تھے۔۔۔۔
آخر وہ سب پیچھے رہ گئے۔۔۔
کچھ دور مزید چلنے کے بعد شیر نے ننھے سے پوچھا۔۔
“تم کچھ غصے میں نظر آ رہے ہو؟”
“انہوں نے ہمیں برا بھلا کہا، ہمارا مذاق اڑایا، آپ نے انہیں کچھ کہا کیوں نہیں؟”
ننھا شیر بالکل بھرا بیٹھا تھا۔
اس کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔۔
بال کھڑے ہو گئے تھے۔۔۔
آواز بمشکل ہی نکل رہی تھی۔۔۔
“تمہیں روز ہی راستے میں ایسے کئی کتے ، لکڑ بگھے اور گیدڑ ملیں گے، اگر تم روزانہ رک کر ان کا جواب دیتے رہو گے تو اپنے راستے پر کیسے چلو گے؟”
“مگر اس طرح تو یہ ہمیں کمزور سمجھیں گے، اور زیادہ تنگ کریں گے”
“جو طاقت ور ہوتا ہے اسے اپنی طاقت کا علم ہوتا ہے۔۔۔
وہ اس گہرے سمندر کی طرح ہوتا ہے جس میں پتھر پھینکو تو طوفان نہیں اٹھتے۔۔۔
جو کمزور ہوتا ہے وہ اکثر اپنی کمزوری سے غافل ہوتا ہے، وہ یونہی چیختا چلاتا رہتا ہے۔۔۔
جب اس کا دم ختم ہوجاتا ہے تو وہ اپنی جگہ پر رک جاتا ہے۔۔
پھر اسے کچھ دیر بعد کچھ نیا مل جاتاہے۔۔
تم ابھی تک اس واقعے کے بارے میں سوچ رہے ہو۔۔
ایسے واقعات تمہاری پوری زندگی کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہیں۔۔
یہ تو ایک دن کے بھی ایک چھوٹے سے حصے کے بھی بمشکل برابر ہیں۔۔
زندگی کا تو ایک فیصد بھی نہیں۔۔۔
مگر تم سوچ سوچ کر ان سے پیدا ہونے والی جلن اور غصے کو باقی 99 فیصد زندگی پر لپیٹ سکتے ہو۔۔۔
سوچنا سیکھ لو۔۔۔
جذبات پر قابو پانا سیکھ لو۔۔۔
خوش رہو گے۔‘‘